ایمل ولی خان کا نام ہمیشہ پارلیمانی بالادستی اور صوبائی حقوق کے حوالے سے نمایاں رہا ہے۔ حال ہی میں اُن کے ایک بیان نے قومی سیاست میں ہلچل مچا دی جب انہوں نے سینیٹ میں وزیرِاعظم شہباز شریف اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی ایک ملاقات پر سوال اٹھایا۔ تاہم اب اُنہوں نے اسی معاملے پر وزیرِاعظم سے وضاحت کے بعد معافی مانگ لی ہے، جس نے ایک نئے سیاسی موڑ کو جنم دیا ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف ایمل ولی خان کی جمہوری سوچ کو ظاہر کرتا ہے بلکہ یہ بھی دکھاتا ہے کہ ملکی سیاست میں اختلافِ رائے کے باوجود مکالمہ اب بھی ممکن ہے۔
ایمل ولی خان، جو عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی رہنما اور سینیٹر ہیں، نے حال ہی میں سینیٹ کے اجلاس میں ایک بیان دیا تھا جس میں اُنہوں نے وزیرِاعظم شہباز شریف کے امریکہ دورے پر اٹھنے والے سوالات کو اجاگر کیا۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں ایک تصویر کا حوالہ دیا جو سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہوئی تھی۔ اس تصویر میں وزیرِاعظم شہباز شریف، اُس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اور پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر موجود تھے۔ تصویر میں ایک بریف کیس دکھائی دے رہا تھا جس میں کچھ معدنیات رکھی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔
ایمل ولی خان نے سوال اٹھایا تھا کہ اگر واقعی نایاب معدنیات سے متعلق کوئی معاہدہ ہو رہا ہے تو وہ کس قانون کے تحت ہے؟ اور کیا پارلیمنٹ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا گیا؟ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ایسے فیصلے اگر خفیہ طور پر ہوں تو یہ جمہوریت کے بجائے آمریت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اُن کے اس بیان نے نہ صرف ایوانِ بالا میں بحث چھیڑ دی بلکہ میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر بھی گرما گرم مباحثے شروع ہو گئے۔
وفاقی وزیرِ قانون، اعظم نذیر تارڑ نے کل میری تقریر سے قبل وزیراعظم کے ساتھ میری ملاقات، جو دراصل ان کے دورۂ امریکہ پر بریفنگ تھی کا ذکر کیا۔ اس حوالے سے میں ضروری وضاحت دینا چاہتا ہوں۔ باقی، جمعرات کو لگائے گئے الزامات کا جواب تفصیل سے دوں گا۔
سینیٹ آف پاکستان میں تقریر کے بعد…— Aimal Wali Khan (@AimalWali) October 7, 2025
وزیرِقانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وزیرِاعظم نے ایمل ولی خان کو ملاقات کی دعوت دی تاکہ وہ امریکہ کے دورے سے متعلق تمام تفصیلات انہیں بتا سکیں۔ بعد ازاں ایمل ولی خان نے ایک پوسٹ میں لکھا کہ وزیرِاعظم نے خود اُنہیں مدعو کیا اور تفصیلاً بریفنگ دی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ اُنہیں امریکہ کے دورے پر فوجی قیادت کے ہمراہ جانا اس لیے ضروری تھا کیونکہ بعض اسٹریٹجک معاملات میں عسکری مشاورت ناگزیر ہوتی ہے۔
مزید وضاحت دیتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ جو بریف کیس تصویر میں نظر آ رہا تھا، وہ دراصل ایک تحفہ تھا جو آرمی چیف نے اپنی ذاتی جیب سے خریدا تھا اور اس کا کسی بھی قسم کے معدنی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اُنہوں نے ایمل ولی خان سے کہا کہ یہ سارا معاملہ محض ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔
ایمل ولی خان نے جواب میں کہا کہ اگر یہ تصویر کسی معاہدے سے متعلق نہیں اور میری بات سے غلط تاثر پیدا ہوا ہے، تو میں معذرت خواہ ہوں۔ اُنہوں نے کہا کہ “میں جس جرات سے تنقید کرتا ہوں، اُسی جرات سے اپنی غلطی پر معافی مانگنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہوں۔” اس بیان نے اُن کی سیاسی بردباری کو نمایاں کر دیا اور کئی حلقوں میں اُن کے اس رویے کو سراہا گیا۔
دوسری جانب اے این پی کے ترجمان انجینئر احسان اللہ خان نے وضاحت دی کہ ایمل ولی خان کی تقریر پارلیمانی بالادستی کے اصول پر مبنی تھی۔ پارٹی ہمیشہ سے آئینی اداروں کی حدود کے احترام کی قائل رہی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ “ہم تمام قومی اداروں کے کردار کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر ادارہ آئینی دائرہ کار میں رہے۔”
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمل ولی خان کے اس بیان کے بعد اُن کی سکیورٹی واپس لے لی گئی تھی، جس پر سیاسی حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تاہم بعد ازاں جب انہوں نے وضاحت کے بعد معافی مانگی تو صورتِ حال کچھ بہتر دکھائی دی۔
یہ واقعہ بظاہر ایک غلط فہمی پر مبنی سیاسی تنازع تھا، لیکن اس نے ایک اہم پیغام دیا — کہ اختلافِ رائے کو مکالمے کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی ہمیشہ سے پارلیمانی بالادستی، صوبائی خودمختاری اور جمہوریت کی مضبوطی کے لیے جانی جاتی ہے۔ ایمل ولی خان کے والد، اسفند یار ولی خان، بھی ان اصولوں کے علمبردار رہے۔ ماضی میں بھی اے این پی نے مرکزی حکومتوں کے بعض فیصلوں پر کھل کر اعتراضات کیے، خاص طور پر اُن فیصلوں پر جن میں صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
نایاب معدنیات کا معاملہ بھی صوبوں کے وسائل سے منسلک ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے علاقوں میں موجود معدنیات کو ملکی معیشت کے لیے قیمتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم ان وسائل کے استعمال میں شفافیت اور صوبائی شمولیت ہمیشہ ایک اہم سوال رہا ہے۔
اسی پس منظر میں ایمل ولی خان کے سوالات کو محض تنقید نہیں بلکہ ایک آئینی اور جمہوری نکتہ نظر سے دیکھا جا سکتا ہے۔
ایمل ولی خان کی معافی کے بعد سیاسی جماعتوں اور عوامی حلقوں کی جانب سے مختلف ردِعمل سامنے آئے۔ کچھ افراد نے اُن کے فیصلے کو سیاسی بالغ نظری قرار دیا، جبکہ کچھ نے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایسے رابطے جمہوریت کے لیے مثبت ہیں۔
سوشل میڈیا پر بھی اُن کی تعریف کی گئی کہ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کر کے ایک مثال قائم کی۔ اے این پی کے کارکنوں نے کہا کہ اُن کا مقصد حکومت پر تنقید نہیں بلکہ جمہوریت کی تقویت ہے۔
یہ واقعہ پاکستان کی موجودہ سیاسی فضا میں مکالمے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایمل ولی خان کا رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست میں اختلاف کے باوجود شائستگی ممکن ہے۔
یہ معاملہ آئندہ کے لیے ایک اہم سبق بھی ہے — کہ افواہوں اور سوشل میڈیا کی خبروں پر بغیر تصدیق کے فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ میڈیا کے اس دور میں جہاں ہر تصویر اور خبر ایک سیاسی طوفان کھڑا کر سکتی ہے، وہاں سیاستدانوں کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہوگا۔
ممکن ہے کہ اس واقعے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہتر رابطہ کاری دیکھنے کو ملے۔ ایمل ولی خان کی یہ معافی ایک نئے سیاسی توازن کی بنیاد بن سکتی ہے۔
اسی طرح، معدنی وسائل سے متعلق مستقبل کی پالیسیوں میں صوبوں کو زیادہ مؤثر انداز میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت واقعی شفاف طرزِ عمل اپناتی ہے، تو یہ نہ صرف عوام کا اعتماد بحال کرے گا بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا۔
ایمل ولی خان کی معافی کا واقعہ بظاہر ایک معمولی سیاسی اختلاف معلوم ہوتا ہے، مگر اس کے اثرات کہیں گہرے ہیں۔ یہ جمہوری سوچ، برداشت، اور مکالمے کے فروغ کی ایک مثال ہے۔
اگر پاکستانی سیاست اسی سمت میں آگے بڑھی، تو اختلافِ رائے تصادم کے بجائے اصلاح کی بنیاد بن سکتا ہے — اور یہی حقیقی جمہوریت کا مقصد ہے۔