علی امین گنڈا پور کا اچانک استعفیٰ خیبرپختونخوا کی سیاست میں ایک بڑا موڑ بن گیا ہے۔ چند دنوں سے جاری افواہیں بالآخر اس وقت حقیقت کا روپ دھار گئیں جب پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان نے جیل سے ہدایت جاری کرتے ہوئے صوبے کے نئے وزیرِاعلیٰ کے لیے سہیل آفریدی کا نام تجویز کیا۔ اس فیصلے نے نہ صرف پارٹی کے اندر نئی صف بندی پیدا کی بلکہ عوامی اور سیاسی حلقوں میں بھی ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
خیبرپختونخوا ہمیشہ سے سیاسی اعتبار سے متحرک صوبہ رہا ہے، لیکن اس بار تبدیلی کا انداز غیر معمولی تھا۔ گنڈا پور کا استعفیٰ محض ایک انتظامی تبدیلی نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے اندرونی نظم و ضبط اور قیادت کے وژن کا مظہر سمجھا جا رہا ہے۔
علی امین گنڈا پور، جو تقریباً ڈیڑھ سال سے خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے، نے اچانک اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ قدم اپنے قائد عمران خان کے حکم کی تعمیل میں اٹھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں انہوں نے لکھا: “میں اپنے قائد عمران خان کے احکامات کے احترام میں وزارتِ اعلیٰ سے مستعفی ہو رہا ہوں۔ یہ میرا اعزاز ہے کہ میں نے ان کے وژن کے مطابق خدمت کی۔”
استعفیٰ کے ساتھ انہوں نے گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی کو بھی باضابطہ خط ارسال کیا، جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی اور مدتِ وزارت کے دوران پیش آنے والے چیلنجز کا تفصیلی ذکر کیا۔ گنڈا پور نے اپنے خط میں کہا کہ جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو صوبہ مالی بحران اور دہشت گردی کے دوہرے دباؤ میں تھا۔ تاہم، ان کے مطابق، انہوں نے اپنی کابینہ، پارٹی اراکین اور بیوروکریسی کے تعاون سے صوبے کو معاشی استحکام کی طرف گامزن کیا اور شدت پسندی کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
میں اپنی لیڈرشپ سے کہتا ہوں ایک بار پھر سے 24 نومبر کو اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دے، اس بار ہم آگے ہوں گے جبکہ ورکرز پیچھے ہوں گے👏❤️
کچھ دن پہلے سہیل آفریدی کا مطالبہ 🔥#عمران_احمد_خان_نیازی@SohailAfridiISF pic.twitter.com/gY3X3ejvdr
— SANIA KHAN (@khan_Sania5) October 8, 2025
ان کا کہنا تھا کہ “میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میں نے تمام چیلنجز پر کامیابی حاصل کی، لیکن یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہر فیصلہ خلوص نیت سے صوبے اور پاکستان کے مفاد میں کیا۔”
استعفیٰ کی خبر نے ابتدا میں قیاس آرائیوں کو جنم دیا کیونکہ گنڈا پور کے ترجمان نے میڈیا میں ان خبروں کی تردید کی تھی۔ تاہم چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل بیرسٹر سلمان اکرم راجہ نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد تصدیق کی کہ عمران خان نے گنڈا پور سے استعفیٰ طلب کیا ہے اور ان کی جگہ سہیل آفریدی کو نیا وزیرِاعلیٰ مقرر کیا گیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ کے مطابق، عمران خان نے یہ فیصلہ صوبے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کے پیش نظر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ “خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی نئی لہر نے تشویش پیدا کر دی ہے۔ آج ہی اورکزئی میں ہمارے جوان شہید ہوئے، اس پس منظر میں قیادت نے فیصلہ کیا کہ تبدیلی ضروری ہے۔”
پی ٹی آئی کے بانی رہنما کے مطابق صوبائی حکومت وفاق کی پالیسیوں سے خود کو علیحدہ نہیں کر سکی تھی، جس کی وجہ سے پارٹی کا وژن متاثر ہو رہا تھا۔ عمران خان کا مؤقف ہے کہ امن کا قیام محض طاقت سے نہیں بلکہ بات چیت اور علاقائی تعاون سے ممکن ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ عمران خان افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری سے بھی سخت نالاں ہیں، اور اسے “چالیس سال کی میزبانی کے بعد ایک افسوسناک عمل” قرار دیا۔ ان کے مطابق، عمران خان کا ماننا ہے کہ پختون روایات کے مطابق عزت اور گفت و شنید سے ہی دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔
گنڈا پور کے بعد سہیل آفریدی کی نامزدگی پر پارٹی کے اندرونی حلقوں میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ آفریدی کے گھر کے باہر سیکیورٹی سخت کر دی گئی، جبکہ پارٹی کے رہنما اور کارکنان نے اسے “نئے دور کا آغاز” قرار دیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تبدیلی ایسے وقت میں سامنے آئی جب چند روز قبل گنڈا پور اور عمران خان کی بہن علیمہ خان کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ ہوا تھا۔ علیمہ خان نے الزام لگایا تھا کہ گنڈا پور پارٹی کے اندر اختلافات پیدا کر رہے ہیں، جبکہ گنڈا پور نے جوابی ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ “پارٹی کے اندر بعض عناصر اپنی ذاتی سیاست کو ترجیح دے رہے ہیں۔”
سیاسی ماہرین کے مطابق، اگرچہ عمران خان نے گنڈا پور کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، لیکن یہ واضح پیغام دیا گیا کہ پارٹی نظم و ضبط اور قیادت کے فیصلے سب سے بالاتر ہیں۔
علی امین گنڈا پور تحریکِ انصاف کے ایک سرگرم اور متنازع رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ عمران خان کے قریبی ساتھی رہے ہیں اور 2018 کے عام انتخابات کے بعد وفاقی کابینہ میں بھی شامل رہے۔ ان کی سخت مزاجی اور غیر معمولی بیانات اکثر انہیں خبروں میں رکھے ہوئے تھے۔
خیبرپختونخوا میں بطور وزیرِاعلیٰ ان کا دور مشکل ترین حالات میں گزرا۔ دہشت گردی کی نئی لہر، مالی بحران اور وفاق سے تعلقات میں تناؤ ان کے لیے بڑے چیلنجز تھے۔ تاہم، ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے امن و امان بحال کرنے اور ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے کی بھرپور کوشش کی۔
سوشل میڈیا پر گنڈا پور کے استعفے کے بعد مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ صارفین نے اسے “قائد کے فیصلے پر مکمل اعتماد” کا مظہر قرار دیا، جبکہ دیگر نے اسے “پارٹی کے اندر اختلافات” کا نتیجہ بتایا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ پارٹی نظم و ضبط پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ مخالف جماعتوں نے اس فیصلے کو “اندرونی بحران کا اعتراف” قرار دیا۔
یہ تبدیلی صرف ایک شخصی تبدیلی نہیں بلکہ خیبرپختونخوا کی پالیسی سمت میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ سہیل آفریدی، جو امن مذاکرات اور عوامی رابطوں کے حوالے سے نرم مزاج سیاستدان سمجھے جاتے ہیں، شاید ایک زیادہ متوازن پالیسی کی طرف قدم بڑھائیں گے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق، عمران خان کی جانب سے قیادت میں تبدیلی کا مقصد صوبے میں امن کی بحالی اور پارٹی کے اندر اتحاد کو مضبوط بنانا ہے۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پی ٹی آئی آئندہ انتخابات کے لیے اپنی صفوں کو از سرِ نو منظم کر رہی ہے۔
سہیل آفریدی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ممکنہ طور پر صوبے کی ترجیحات میں امن و امان سرفہرست ہوں گے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ وفاق کے ساتھ تعاون بڑھانے اور افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے پر زور دیں گے۔
اگرچہ گنڈا پور اب “عوامی سیاست” پر توجہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، مگر ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ وہ مستقبل میں دوبارہ کسی اہم کردار میں واپس آ سکتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور کا استعفیٰ خیبرپختونخوا کی سیاست کے ایک دور کا اختتام اور نئے باب کا آغاز ہے۔ عمران خان کے فیصلے نے ظاہر کر دیا کہ قیادت کے نزدیک پارٹی نظم و ضبط، کارکردگی، اور امن کی پالیسی کسی فرد سے زیادہ اہم ہے۔
یہ فیصلہ آنے والے مہینوں میں نہ صرف صوبے بلکہ ملکی سیاست پر بھی اثر ڈال سکتا ہے — اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ سہیل آفریدی کے دور میں خیبرپختونخوا کس سمت جاتا ہے۔