logo

پاکستانی فورسز کی بڑی کامیابی: افغان سرحدی چوکیوں پر قبضہ، دہشت گرد ٹھکانے تباہ

پاکستانی فورسز

پاکستانی فورسز نے افغان سرحد پر 19 چوکیوں پر قبضہ کر کے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیے۔ پاکستان نے واضح کر دیا کہ جارحیت برداشت نہیں کی جائے گی۔

پاکستانی فورسز نے ایک اہم اور فیصلہ کن کارروائی میں افغان سرحدی علاقے میں دہشت گردوں کے متعدد ٹھکانے تباہ کرتے ہوئے 19 افغان چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ کارروائی اس وقت کی گئی جب افغان جانب سے اچانک اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی سرحدی علاقے کو نشانہ بنایا گیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق، پاکستانی جوانوں نے نہ صرف حملے کا بھرپور جواب دیا بلکہ دہشت گردوں کے بڑے مراکز کو بھی نشانہ بنایا، جس سے دشمن کو بھاری نقصان پہنچا۔

یہ واقعہ دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی کے تناظر میں پیش آیا، جب افغانستان کی عبوری حکومت پر پاکستان کی جانب سے دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کے الزامات لگائے گئے۔ پاکستانی عوام اور حکام دونوں نے اس کارروائی کو ملک کے دفاع میں ایک مؤثر اور جرات مندانہ قدم قرار دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق، پاکستانی فورسز نے افغان سرحد کے قریب مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے 19 افغان چوکیوں پر قبضہ حاصل کر لیا۔ یہ وہ مقامات تھے جہاں سے افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی حدود میں بارہا حملے کیے جا رہے تھے۔ ان چوکیوں میں جندوسر پوسٹ، ترکمنزئی کیمپ، خچر قلعہ اور منوجبہ بیس شامل ہیں جنہیں مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، افغان طالبان کے متعدد جنگجو مارے گئے جبکہ کئی اپنی جانیں بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ کارروائی کے دوران پاکستانی فورسز نے جدید اسلحہ، ٹینک اور ڈرونز کا استعمال کیا۔ کچھ مقامات پر شدید آگ بھڑک اٹھی اور افغان فوجی مورچوں سے دھواں بلند ہوتا رہا۔

پاکستانی سرکاری ذرائع نے بتایا کہ افغان جانب سے کی گئی فائرنگ کا مقصد دہشت گرد گروہوں کو پاکستانی سرحد کے اندر داخل کروانا تھا، مگر پاکستانی پوسٹس پوری طرح الرٹ تھیں۔ پاکستانی فوج نے فوری اور سخت جوابی کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف دہشت گردوں کے عزائم ناکام بنائے بلکہ اُن کے کئی ٹھکانے صفحہ ہستی سے مٹا دیے۔

ان کارروائیوں کے دوران افغان فورسز کے کئی اہلکاروں اور دہشت گردوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں افغان چوکیوں کو شعلوں میں لپٹا دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ کچھ ویڈیوز میں افغان اہلکاروں کو ہتھیار ڈال کر پاکستانی فورسز کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اپنے بیان میں کہا کہ “افغان فورسز کی جانب سے شہری آبادی پر فائرنگ بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور پاکستان نے بروقت اور مؤثر جواب دیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “پاکستان کے بہادر سپاہی چٹان کی طرح مضبوط ہیں، اور کسی بھی جارحیت کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔”

ادھر پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے بھی واضح کیا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی قسم کی دہشت گردی یا دراندازی برداشت نہیں کرے گا۔ ترجمان کے مطابق، افغان سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کے کیمپس پاکستان کے لیے براہ راست خطرہ ہیں، اور ان کے خلاف کارروائی پاکستان کا حقِ دفاع ہے۔

دوسری جانب، افغان وزارت دفاع نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ پاکستان نے اُن کے علاقے پر بمباری کی۔ تاہم پاکستان نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی صرف اُن ٹھکانوں پر کی گئی جو پاکستان پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہے تھے۔ افغان میڈیا کے مطابق، ان جھڑپوں کے بعد ٹورخم بارڈر کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ افغان حکام نے تصدیق کی ہے کہ چمن اور طورخم کے قریب بھی فائرنگ کے تبادلے ہوئے، جن میں متعدد افغان اہلکار مارے گئے۔

سفارتی سطح پر، ایران، سعودی عرب اور قطر نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ ایران کے نائب وزیرِ خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ “دونوں ممالک کو ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ خطے کا امن دونوں کے مفاد میں ہے۔”

سعودی عرب نے بھی پاکستان اور افغانستان سے کہا کہ “بات چیت اور دانشمندی سے تنازعہ ختم کیا جائے تاکہ خطے کا امن قائم رہ سکے۔” قطر نے اپنے بیان میں زور دیا کہ “دونوں ممالک کو باہمی اختلافات کو سفارتکاری کے ذریعے حل کرنا چاہیے تاکہ خطہ مزید کشیدگی سے بچ سکے۔”

پاکستانی حکام کے مطابق، حالیہ کارروائیاں اس وقت کی گئیں جب افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی اور داعش سے وابستہ عناصر پاکستانی علاقوں میں دہشت گردی کر رہے تھے۔ “یہ کارروائی ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب مزید برداشت نہیں کرے گا،” ایک سیکیورٹی افسر نے کہا۔

پس منظر

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات طویل عرصے سے سرحدی تنازعات اور دہشت گردی کے الزامات سے گزر رہے ہیں۔ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو امید تھی کہ سرحدی سلامتی میں بہتری آئے گی، مگر اس کے برعکس، ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

پاکستان بارہا افغان حکومت سے کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے استعمال سے محفوظ بنائے، لیکن کابل کی جانب سے مؤثر اقدامات نہ ہونے کے باعث حالات بگڑتے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی کئی بار چمن، باجوڑ، اور طورخم کے علاقوں میں فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں جن سے دونوں جانب نقصانات ہوئے۔

ردعمل

پاکستانی عوام نے سوشل میڈیا پر فورسز کے اس اقدام کو بھرپور سراہا۔ مختلف صارفین نے “#PakArmyZindabad” اور “#PakistanDefends” جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ سیاسی سطح پر بھی حکومتی وزراء نے اسے “دفاعِ وطن کا عظیم کارنامہ” قرار دیا۔

بین الاقوامی سطح پر اگرچہ ایران، سعودی عرب اور قطر نے تحمل کی اپیل کی ہے، مگر پاکستانی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنے دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ افغان طالبان کی خاموشی اور دوغلی پالیسی نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کو مزید کمزور کر دیا ہے۔

تجزیہ

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی نہ صرف سرحدی سیکیورٹی کے لیے اہم تھی بلکہ اس نے دہشت گرد تنظیموں کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ اگرچہ اس سے وقتی کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن طویل المدتی طور پر یہ پاکستان کے قومی مفادات کے لیے فائدہ مند قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق، بارڈر بند ہونے سے عارضی تجارتی نقصان ممکن ہے، مگر سیکیورٹی کی بحالی کے بعد تجارت دوبارہ مستحکم ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب، عالمی برادری کی دلچسپی اس واقعے پر ظاہر کرتی ہے کہ خطے کی سلامتی کا معاملہ اب ایک بین الاقوامی ترجیح بنتا جا رہا ہے۔

آئندہ اثرات

اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم نہ ہوئی تو دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ تاہم، پاکستان کی یہ کارروائی طالبان حکومت کے لیے ایک انتباہ ہے کہ دہشت گردوں کو پناہ دینا مہنگا پڑ سکتا ہے۔

متوقع طور پر، آئندہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی رابطوں میں تیزی آئے گی تاکہ معاملات کو مزید بگڑنے سے روکا جا سکے۔ خطے کی دیگر قوتیں بھی اس تنازعے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر سکتی ہیں۔

نتیجہ

پاکستانی فورسز کی حالیہ کارروائی نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ ملک کی سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان سرحد پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ صرف دفاعی نوعیت کا اقدام تھا بلکہ یہ پاکستان کے عزم اور طاقت کا مظہر بھی ہے۔

اگرچہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، مگر امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ کابل اپنی سرزمین دہشت گرد عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکے۔ پاکستان کا مؤقف واضح ہے — جارحیت کا جواب امن سے نہیں، بلکہ طاقت سے دیا جائے گا۔