خیبر پختونخوا اسمبلی ایک بار پھر ملکی سیاست کا مرکز بن گئی ہے جہاں 13 اکتوبر (پیر) کو نئے قائدِ ایوان یعنی وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونے جا رہا ہے۔ یہ انتخاب اس وقت سامنے آیا جب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، جس کی تصدیق گورنر فیصل کریم کنڈی نے کر دی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ پیش رفت غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ تحریک انصاف کی قیادت نے نئے وزیر اعلیٰ کے لیے سخی اور نوجوان رہنما سہیل آفریدی کو نامزد کیا ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف پارٹی کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلی کا اشارہ ہے بلکہ صوبے کی سیاسی سمت کے تعین کے لیے بھی اہم موڑ تصور کیا جا رہا ہے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے سیکرٹریٹ نے ہفتہ کے روز نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کا باضابطہ شیڈول جاری کر دیا ہے۔ اسمبلی اسپیکر بابر سلیم سواتی نے اپنے سرکاری اکاؤنٹ پر اعلان کیا کہ پیر 13 اکتوبر کی صبح 10 بجے اجلاس منعقد ہوگا جس میں قائدِ ایوان کے لیے ووٹنگ کا عمل مکمل کیا جائے گا۔ شیڈول کے مطابق امیدواروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اتوار 12 اکتوبر کو سہ پہر 3 بجے تک اپنے نامزدگی کے کاغذات جمع کروائیں۔ اسی روز کاغذات کی جانچ پڑتال بھی مکمل کر لی جائے گی تاکہ پیر کے روز اسمبلی کے اجلاس میں باضابطہ طور پر نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ممکن بنایا جا سکے۔
یہ تمام عمل ایسے وقت میں شروع ہوا جب گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے تصدیق کی کہ انہیں علی امین گنڈاپور کا ہاتھ سے تحریر کردہ استعفیٰ موصول ہو گیا ہے، جو 11 اکتوبر کی تاریخ کے ساتھ دوپہر 2:30 بجے جمع کرایا گیا۔ گورنر نے بیان دیا کہ آئینی اور قانونی تقاضوں کے مطابق استعفے کی جانچ کی جا رہی ہے تاکہ اسے آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت حتمی کارروائی کے بعد قبول کیا جا سکے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا شیڈول جاری —
کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد 13 اکتوبر صبح 10 بجے ایوان میں قائدِ ایوان (وزیراعلیٰ) کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔#KhyberPakhtunkhwaAssembly #CMElection #KPAssembly #PTI #KPKUpdates pic.twitter.com/gzgChMJiMg— Babar Saleem Swati (@BabarSaleemSwat) October 11, 2025
تحریک انصاف نے استعفے کے بعد پشاور میں ایک اہم پارلیمانی اجلاس منعقد کیا جس میں پارٹی قیادت، بشمول سلمان اکرم راجہ، جنید اکبر خان، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور اسپیکر کے پی اسمبلی، نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر سہیل آفریدی کو نئے وزیر اعلیٰ کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا۔
پارٹی ذرائع کے مطابق، سہیل آفریدی کا تعلق سابق قبائلی علاقے سے ہے اور وہ خیبر پختونخوا کی تاریخ میں اس علاقے سے پہلے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یہ فیصلہ مکمل طور پر جمہوری عمل کا حصہ ہے۔ ان کے مطابق، “یہ تبدیلی کسی سیاسی بحران کا نتیجہ نہیں بلکہ قیادت کے وژن کے تحت ایک منظم منتقلی ہے۔”
علی امین گنڈاپور، جو اپنی جرات مندانہ گفتگو اور عوامی مقبولیت کے لیے جانے جاتے ہیں، نے 8 اکتوبر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ انہوں نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا:
“میں اپنے قائد، پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کے حکم پر وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ میرے لیے یہ باعثِ فخر ہے کہ میں نے اپنے لیڈر کے اعتماد پر خدمت انجام دی۔”
ان کا استعفیٰ وزیراعلیٰ کے مشیر برائے انسداد بدعنوانی بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی کے ذریعے گورنر ہاؤس پہنچایا گیا۔
گورنر کنڈی نے اس سے قبل کہا تھا کہ اگر استعفے میں کوئی آئینی یا قانونی ابہام پایا گیا تو وہ اسے واپس بھیجنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ تاہم، کے پی کے وزیر قانون افتخار عالم کے مطابق، آئین کے آرٹیکل 130 کے تحت وزیر اعلیٰ کسی بھی وقت استعفیٰ دے سکتے ہیں اور گورنر کی منظوری صرف ایک رسمی عمل ہے۔
اسی حوالے سے بات کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا، “وزیر اعلیٰ کا عہدہ گورنر کے ماتحت نہیں۔ گورنر کو صرف اطلاع دینا آئینی تقاضہ ہے، منظوری کی ضرورت نہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ “خیبر پختونخوا اسمبلی پیر کے روز سہیل آفریدی کو قائدِ ایوان منتخب کرے گی اور صوبہ ایک نئے جوش کے ساتھ آگے بڑھے گا۔”
تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کی قیادت میں نئی کابینہ میں کئی نئے چہرے شامل کیے جائیں گے جو صوبے میں انتظامی کارکردگی اور گورننس کو بہتر بنائیں گے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں یہ تبدیلی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب تحریک انصاف وفاقی سیاست میں شدید دباؤ کا شکار ہے۔ عمران خان کی گرفتاری اور پارٹی کے خلاف جاری کارروائیوں کے باوجود کے پی وہ واحد صوبہ رہا جہاں پی ٹی آئی اپنی حکومت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔
علی امین گنڈاپور نے اپنی مدت کے دوران امن و امان کی بحالی، بلدیاتی نظام کی مضبوطی اور ترقیاتی منصوبوں پر توجہ دی، تاہم حالیہ مہینوں میں پارٹی قیادت کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلی کے اشارے ملنے لگے تھے۔
پارٹی کے اندر یہ تاثر پایا جا رہا تھا کہ صوبے میں نئی قیادت لانے سے نہ صرف نوجوان طبقے کو نمائندگی ملے گی بلکہ انتظامی کارکردگی میں بھی تیزی آئے گی۔
سوشل میڈیا پر گنڈاپور کے استعفے اور آفریدی کی نامزدگی پر مختلف آراء سامنے آئیں۔ کچھ صارفین نے اسے “سیاسی قربانی” قرار دیا، جب کہ دوسروں نے اس اقدام کو پارٹی کے اندر جمہوری روایت کی مضبوطی کے طور پر سراہا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گنڈاپور کے جانے سے اگرچہ کچھ حلقوں میں حیرت پائی جاتی ہے، مگر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت صوبے میں نئی توانائی اور اتحاد پیدا کرنا چاہتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، خیبر پختونخوا اسمبلی میں قیادت کی تبدیلی تحریک انصاف کے لیے ایک اہم موقع ہو سکتا ہے۔ سہیل آفریدی کا تعلق سابق قبائلی علاقے سے ہے، جو طویل عرصے سے محرومیوں کا شکار رہا۔ ان کا وزیر اعلیٰ بننا قبائلی عوام کے لیے سیاسی شمولیت کی نئی راہ کھول سکتا ہے۔
دوسری جانب، پارٹی کے اندر اس تبدیلی کو “نرم منتقلی” کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے وفاقی سطح پر پارٹی قیادت کا کنٹرول مزید مضبوط ہوگا۔ سیاسی لحاظ سے یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے لیے آنے والے عام انتخابات سے قبل ایک نئی حکمت عملی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سہیل آفریدی کامیاب ہوئے تو ان کی حکومت قبائلی اضلاع کے انضمام کے بعد کے مسائل کو حل کرنے پر توجہ دے گی۔ اس سے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں میں تیزی آسکتی ہے اور مرکز کے ساتھ تعلقات میں نرمی پیدا ہو سکتی ہے۔
تاہم، یہ بھی امکان ہے کہ نئی قیادت کو ابتدا میں انتظامی چیلنجز اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑے۔ گورنر ہاؤس اور صوبائی حکومت کے درمیان آئینی اختلافات دوبارہ موضوعِ بحث بن سکتے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں ہونے والا 13 اکتوبر کا اجلاس صوبائی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ علی امین گنڈاپور کے استعفے نے سیاسی منظرنامے میں ہلچل مچا دی ہے، جبکہ تحریک انصاف سہیل آفریدی کے ذریعے نئی قیادت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے پرعزم ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق، اگر یہ منتقلی شفاف اور پرامن طریقے سے مکمل ہو جاتی ہے تو یہ نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ پورے صوبے کے لیے ایک مثبت مثال ثابت ہوگی۔